Sunday, 29 May 2011

اردوصحافت یعنی بندرکے ہاتھ میں ناریل

اردو صحافت آج وقت کے ساتھ چلنے اور  Latest Technology کا استعمال کرنے میں جٹی ہوئی ہے ،  اردو صحافت میں آج پہلے سے زیادہ پڑھے لکھے اور صحافت کا علم یا ڈگری ، ڈپلومہ رکھنے والے لوگ آرہے ہیں ، مجھے اردو صحافت کی حالت اور سمت دونوں گڑبڑ نظر آتی ہے. میری نظر میں اردو صحافت کی حالت آج ویسی ہی ہے جیسی بندر کے ہاتھ میں ناریل کی ہوتی ہے. بندر ناریل کے ساتھ کب تک کھیلے گا ، کب اسے پانی میں اچھال دے گا یا کب اسے زمین پر دے مارے گا ، کہنا مشکل ہے.
یہ صورتحال اس لئے ہے کیونکہ اردو صحافت بالعموم آج بھی نجی ہاتھوں میں ہیں اور اردو صحافت کے ٹھیکیداروہ لوگ بنے بیٹھے ہیں ، جو نہ اردو جانتے ہیں اور نہ صحافت کا علم رکھتے ہیں. یہ لوگ اردو اخبارات کے مالک ہوتے ہیں. اور مالک ہونے کے ناطے پالیسی سازسے لے کر مدیر اور ایڈمنسٹریٹر تک سب کچھ یہی لوگ ہوتے ہیں. وہ جیسا چاہتے ہیں ، کرتے ہیں. ان کی نظر میں صحافیوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے. وہ انہیں کلرک یا ایجنٹ کے طور پر استعمال کرتے ہیں ، اس لئے زیادہ تیز یا پڑھے -- لکھے لوگ ان کو راس نہیں آتے ، ویسے بھی زیادہ پڑھے -- لکھے لوگ مہنگے ہوں گے جبکہ مالکان چیپ اینڈ بیسٹ میں یقین رکھتے ہیں. ایسی صورتحال میں اگر کوئی تیز صحافی آ بھی جاتا ہے تو وہ اس کی ہر بات اور ہر رائے کو نظر انداز کرکے اسے اس کی اوقات بتا دیتے ہیں. وہ کہتے ہیں کہ ہم بزنس کرنے کے لئے آئے ہیں ، اور بزنس کیسے کرنا ہے ، یہ ہم جانتے ہیں ، لیکن حقیقت میں وہ بزنس کرنا بھی نہیں جانتے ، اس لئے وہ اردو کی خدمت یا صحافت تو کرتے ہی نہیں ، ڈھنگ سے بزنس بھی نہیں کر پاتے ہیں.
اردو صحافت میں اب کارپوریٹ سیکٹر نے بھی پاو ¿ں پسارنے شروع کر دیئے ہےں.لیکن وہاں بھی کم وبیش وہی صورت حال ہے۔وہاں بھی عام طورپرکسی نااہل اورچمچہ ٹائپ کے نام نہادجرنلسٹ کو کمان سونپ دی جاتی ہے جو اپنی برتری قائم رکھنے کے لئے اپنے سے بھی زیادہ اہل لوگوں کو لا کر صحافت کی قبرکھودنے کی کوشش کرتے ہیںوہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر کا نام سنتے ہی اردو کے قارئین بھڑک اٹھتے ہیں. انہیں لگتا ہے کہ کارپوریٹ سیکٹرکے اخبار ان کی
آواز مضبوطی کے ساتھ نہیں اٹھا سکتے اور ان کے مفادات کاتحفظ نہیں کر سکتے ہیں.

No comments:

Post a Comment